سر پرا۶ز
ہمیشہ پھول برسانے والی لب آج سنگ باری کر رہے تھے. حریم لہولہان ہوتی روں کے ساتھ گنگ سی بیٹھی تھی. وہ اٹھا تھا اس پر دو
حرف بھیجتے هوئے مخالف سمت میں چل دیا. حریم دھول ہوتی نگاہوں میں چبھن محسوس کرتی ہوئی دیر تلک اسکو دیکھتی رہی. ابھی اس
نے عمار کو تو یہ بتایا ہی نہیں تھا کہ رضا نے صرف اسکو خوش کرنے کے لئے اسکی ضد سے ہار مانتے هوئے نہ صرف علیحدہ رہنے کا
فصیلہ کر لیا تھا بلکے گھر بھی اسکے نام کر دیا تھا.
بڑی بی کے آنسو روکنے کا نام نہیں لیتے تھے.
بڑے میں کی آنکھوں کی ویرانی اور نفرت اسکا وجود چھیدتی تھی. کیا زندگی کبھی ایسا دھوکہ بھی دیتی ہے؟ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ
شخص جو زندگی میں اسکی صرف ایک نگاہ کو ترستا تھا. اسکے مرنے کے بعد اسکے دل میں اسکی محبت پھر سے سر اٹھانے لگی تھی.
سورج اب ڈھل رہا تھا. اس نے ایک نظر سر اٹھا کر اوپر گدلے آسمان کی طرف دیکھا پھر شکستگی سے اٹھ کھڑی ہوئی. ایک ایک قدم،
رضا حسین کی ایک ایک یاد اسکا دامن پکڑ رہی تھی. شہر سے کافی دور آکر وہ ریل کی پٹری پر بیٹھ گئی.
ایک سرپرائز اس نے رضا حسین کو دیا تھا جواب میں ایک سرپرائز اسکو رضا حسین دے کر چلا گیا. ابھی تھوڑی دیر قبل ایک سرپرائز اسکو
عمار سے ملا تھا.اب ایک سرپرائز اسکو اب زندگی کو دینا تھا اندھی خواھشات کی بھینٹ چرنے والوں کے ساتھ تقدیر عموما ایسے ہی کھیل
کھیلا کرتی ہے.
"مجھ سے مخلص تھا نہ واقف میرے جذبات سے تھا.
اسکا رشتہ تو فقط اپنے مفادات سے تھا.
اب جو بچھڑا ہے تو کیا روئیں جدائی پر تیری.
یہ اندیشہ تو ہمیں پہلی ملاقات سے تھا".
...........................................................
Naymat khan
21-Dec-2021 04:13 PM
Bahut accha
Reply